کمرہ عدالت میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھی وکلاء پر حملہ قابل مذمت ہے
پریس ریلیز
لاہور
22-جون 2017
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)نے عدالت عالیہ لاہور کے کمرہ عدالت میں معروف وکیل عاصمہ جہانگیر کے ساتھی وکلاء پر درجنوں وکیلوں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
بروز جمعرات جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ’’ایچ آر سی پی عاصمہ جہانگیر کے ساتھی وکلاء کی ٹیم پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ حملہ آوروں کے 70 افراد کے جتھے میں سب کے سب وکیل تھے، جن کا تعلق ایک ایسے شعبے سے ہے جس سے عدالتی کارروائی کی معاونت کرنے کی توقع کی جاتی ہے نہ کہ اس میں رکاوٹ ڈالنے کی جس کا عملی مظاہرہ بروزمنگل عدالت عالیہ لاہور میں دیکھنے کو ملا۔ ایچ آر سی پی کے لیے شدید تشویش کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پرتشدد واقعہ کمرہ عدالت میں پیش آیا۔
یہ بات واضح ہے کہ حملے کی وجہ صرف یہ تھی کہ عاصمہ جہانگیر نے ایک بااثر وکیل جوکہ پاکستان بارکونسل کے ممبر بھی ہیں کے خلاف مقدمہ کرنے والے ایک فریق کی وکالت کی حامی بھری۔ یاد رہے کہ پاکستان بار کونسل ملک میں وکلاء کے پیشہ وارانہ طرز عمل کی نگرانی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔
عدالتی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کے لیے کمرہ عدالت میں اس نوعیت کی غنڈہ گردی ایک ایسی تشویشناک پیش رفت ہے، جس پر اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو وہ سب فریق جنہیں اپنے کیس کی مضبوطی کا یقین نہیں اپنے مخالفین کو قوت کے ذریعے زیر کرنے کی کوشش کریں گے۔
ایچ آر سی پی عاصمہ جہانگیر کے ساتھی وکلاء خاص طور پر شبیر حسین ایڈووکیٹ، اسامہ ملک ایڈووکیٹ اور نور اعجاز ایڈووکیٹ کی جرات کو سراہتا ہے جنہوں نے جسمانی حملے، شدید بدزبانی اور 70 سے زائد وکلاء کے شرمناک اور دھمکی آمیز رویے کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری سے دست بردار ہونے سے انکار کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ حملہ عاصمہ جہانگیر یا ان کی ٹیم کو اپنے موکل کوانصاف دلانے کی جدوجہد سے روک نہیں پائے گا، تاہم یہ اشد ضروری ہے کہ کسی شہری کی قانونی نمائندگی ان کے لیے کوئی مسلسل پُرخطر کام نہ بن جائے۔
’’ایچ آر سی پی یہ امید اور توقع رکھتا ہے کہ پاکستان بار کونسل اور وکلاء برادری کے رہنما وکلاء کے اس گروہ کی جانب سے ایسے افسوسناک طرز عمل کا سد باب کریں گے اور ایسا واقعہ دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے موثر پیش بندی کریں گے۔اگرچہ عدالت عالیہ سے بھی توقع ہے کہ وہ اپنے احاطے میں تشدد اور دھونس کے اس شرمناک مظاہرے کا نوٹس لے گی، تاہم اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بنیادی ذمہ داری حکام پر عائد ہوتی ہے۔ اگر یہ کارروائی صرف اس وجہ سے نہیں ہوتی، یا اس میں تاخیر ہوتی ہے کہ ملزمان وکیل ہیں تو پھر یقین رکھیے کہ مستقبل میں وکلاء اور معاشرہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن صورتحال کا سامنا کریں گے۔
بروز جمعرات جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ’’ایچ آر سی پی عاصمہ جہانگیر کے ساتھی وکلاء کی ٹیم پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ حملہ آوروں کے 70 افراد کے جتھے میں سب کے سب وکیل تھے، جن کا تعلق ایک ایسے شعبے سے ہے جس سے عدالتی کارروائی کی معاونت کرنے کی توقع کی جاتی ہے نہ کہ اس میں رکاوٹ ڈالنے کی جس کا عملی مظاہرہ بروزمنگل عدالت عالیہ لاہور میں دیکھنے کو ملا۔ ایچ آر سی پی کے لیے شدید تشویش کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پرتشدد واقعہ کمرہ عدالت میں پیش آیا۔
یہ بات واضح ہے کہ حملے کی وجہ صرف یہ تھی کہ عاصمہ جہانگیر نے ایک بااثر وکیل جوکہ پاکستان بارکونسل کے ممبر بھی ہیں کے خلاف مقدمہ کرنے والے ایک فریق کی وکالت کی حامی بھری۔ یاد رہے کہ پاکستان بار کونسل ملک میں وکلاء کے پیشہ وارانہ طرز عمل کی نگرانی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔
عدالتی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کے لیے کمرہ عدالت میں اس نوعیت کی غنڈہ گردی ایک ایسی تشویشناک پیش رفت ہے، جس پر اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو وہ سب فریق جنہیں اپنے کیس کی مضبوطی کا یقین نہیں اپنے مخالفین کو قوت کے ذریعے زیر کرنے کی کوشش کریں گے۔
ایچ آر سی پی عاصمہ جہانگیر کے ساتھی وکلاء خاص طور پر شبیر حسین ایڈووکیٹ، اسامہ ملک ایڈووکیٹ اور نور اعجاز ایڈووکیٹ کی جرات کو سراہتا ہے جنہوں نے جسمانی حملے، شدید بدزبانی اور 70 سے زائد وکلاء کے شرمناک اور دھمکی آمیز رویے کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری سے دست بردار ہونے سے انکار کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ حملہ عاصمہ جہانگیر یا ان کی ٹیم کو اپنے موکل کوانصاف دلانے کی جدوجہد سے روک نہیں پائے گا، تاہم یہ اشد ضروری ہے کہ کسی شہری کی قانونی نمائندگی ان کے لیے کوئی مسلسل پُرخطر کام نہ بن جائے۔
’’ایچ آر سی پی یہ امید اور توقع رکھتا ہے کہ پاکستان بار کونسل اور وکلاء برادری کے رہنما وکلاء کے اس گروہ کی جانب سے ایسے افسوسناک طرز عمل کا سد باب کریں گے اور ایسا واقعہ دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے موثر پیش بندی کریں گے۔اگرچہ عدالت عالیہ سے بھی توقع ہے کہ وہ اپنے احاطے میں تشدد اور دھونس کے اس شرمناک مظاہرے کا نوٹس لے گی، تاہم اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بنیادی ذمہ داری حکام پر عائد ہوتی ہے۔ اگر یہ کارروائی صرف اس وجہ سے نہیں ہوتی، یا اس میں تاخیر ہوتی ہے کہ ملزمان وکیل ہیں تو پھر یقین رکھیے کہ مستقبل میں وکلاء اور معاشرہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن صورتحال کا سامنا کریں گے۔
(ڈاکٹر مہدی حسن)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
Category: Urdu