عاصمہ جہانگیر کی یاد میں

| 21 March 2018

پریس ریلیز

جنیوا، 16 مارچ 2018

عاصمہ جہانگیر کی یاد میں  

عاصمہ جہانگیر کی شخصیت کا بنیادی خاصہ یہ تھا کہ وہ ایسے وقت میں آواز بلند کرتی تھیں جب بہت سے لوگ خوف کے مارے چُپ ہوجاتے تھے۔ میری پیشگی معذرت قبول کرلیں کیونکہ کسی بھی تقریرمیں اُن کی جدوجہد کا احاطہ کرنا ممکن نہیںہے۔

عاصمہ جہانگیر بچپن سے ہی جبر اور امتیازی سلوک کے خلاف صف آرا ءتھیں، اور ’ننھی ہیروئن‘ کے نام سے پکاری جانے والی لڑکی بڑا ہوکر انسانی حقوق کی سرگرم کا رکن بنی اور اس دنیا کو بہتر مقام بنانے کے لیے جدوجہد کا عملی نمونہ ثابت ہوئی۔

عاصمہ نے تمام افراد کے انسانی حقوق کو قانونی تحفظ دینے کے جذبے سے سرشار ہوتے ہوئے، اپنی بہن اور دیگر کارکنوں کے ساتھ مل کر ایک لاءفرم قائم کی جوکہ پاکستان میں عورتوں کی جانب سے بنائی گئی پہلی لاءفرم تھی۔ عاصمہ معاشرے کے سب سے زیادہ غیر محفوظ وپسماندہ طبقوں اور خواتین، اقلیتوں اور بچوں کے حقوق جو عاصمہ کے نزدیک انتہائی اہمیت کے حامل تھے، کا دفاع کرتی رہیں۔ اپنی عالمی ذمہ داریوں میں مشغول ہونے سے پہلے، وہ ایک طویل عرصہ تک سول سوسائٹی کی کارکن کی حیثیت سے کام کرتی رہیں، اور انہوں نے کئی این جی اوز کی بنیاد رکھی، ان تنظیموں کی انتظامی کونسل اور جنرل کونسل کارکن رہیں۔ ان تمام ذمہ داریوں کے دوران انہوں نے صرف ایک ہی اصول کو سامنے رکھا: ہمارے ہر کام کا مقصد ان لوگوں کا مفاد ہونا چاہیے جن کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔

مذہب کی تضحیک کے معاملات سے باخبر ہونے اور لسانی ومذہبی اقلیتوں کے حقوق کے متعلق حساس ہونے کے باعث انہیں 2004ءمیں مذہب وعقیدے کی آزادی پر خصوصی رپورٹیئر بنایا گیا جس کے نتیجے میں ان کے کام اور آواز کو عالمی پذیرائی ملی۔ ان میں حکومتوں سے سیاسی لحاظ سے حساس قومی معاملات پر کام کروانے کی صلاحیت بھی تھی۔ انہوں نے دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت اور مذہب کی بنیاد پر جرائم سرزد کرنے والوں کو کُھلی چھوٹ کی شدید مذمت کی۔ گزشتہ برس امریتا سین لیکچر کے دوران انہوں نے کہاکہ ”مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کرنے سے قانون خود استحصال کا آلہ بن جاتا ہے“۔

انسانی حقوق، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی ثابت قدم حامی ہونے کی بدولت، انہیں بعد میں ایران میں انسانی حقوق کی خصوصی رپورٹیئر بنایا گیا۔ ان کی زندگی کی داستان اپنے آبائی ملک میں خواتین واقلیتوں کو انصاف دلانے کی جدوجہد سے پہلے ہی رَقم تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے یہ اضافی ذمہ داری بھی انتہائی پُروقار اور عقلمندانہ انداز سے نبھائی۔ ایرانی حکومت نے انہیں اپنی تفویض کردہ ذمہ داری نبھانے سے روکنے کے لیے ان کے خلاف بے بنیاد الزامات کی مہمیں چلائیں اور ان کے لیے کئی مشکلات پیدا کیں مگر یہ تمام ہتھکنڈے انہیں انتہائی اہم معاملات پر کام کرنے سے نہ روک سکے۔ گزشتہ ہفتے کونسل برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں ایران میں نسانی حقوق کی صورتحال پر جو بحث ہوئی اور ایرانی وفد کے ساتھ ملاقاتوں ومشاورتوں کے جو پروگرام طے ہوئے، یہ سب پیش رفتیں ایرانی شہریوں کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے عاصمہ کے بے مثال کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔اگرچہ انہیں ایران میں کام کرنے کا بہت مختصر وقت ملا یہ مختصر مینڈیٹ بھی ایران میں انسانی حقوق کے محافظین کو عاصمہ کے کام اور طاقت کے حجم سے روشناس کرانے کے لیے کافی تھا۔

انہوں نے ایک مرتبہ بی بی سی کے رپورٹر کو انٹرویو میں بتایا کہ :” ایک وقت تھا جب میں خوفزدہ ہوگئی تھی، ایک وقت تھا جب میںچلائی تھی۔۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ وحشیانہ پن کے آگے ہتھیار ڈال دیں؟ نہیں، کبھی نہیں۔“

یہ امر درحقیقت انسانیت اور ایک ایسی خاتون کی ثابت قدمی کو ظاہر کرتا ہے جو مشکل ترین حالات میں طاقت اور ناانصافی کے آگے ڈٹ گئی تھی۔

انسانی حقوق کے حامی کے طور پر عاصمہ کی زندگی کئی معنوں میںدنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے باہمت محافظین کی عکاسی کرتی ہے۔ انہیں کامیابیاں بھی ملیں اور ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوںنے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ انہیں گھر پر نظربند رکھا گیا، انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، اور انہیں نفرت انگیز مہمات کے ذریعے بدنام کیا گیا، لیکن انہوں نے کبھی ہتھیار نہ ڈالے۔ انہوں نے اس بات کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا کہ انسانی وقار کے تحفظ –غیر محفوظ ترین لوگوں کے لیے آواز اٹھانے سے لے کراقوام متحدہ کی رکن کے طور پر بین الاقوامی قانون کے تحفظ تک– کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔

وہ کئی محاذوں جیسے کہ خواتین کے حقوق، پاکستان میں اوردیگر ممالک میں مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق، باضابطہ قانونی کارروائی کے حق کے احترام اور شفاف ٹرائل، سزائے موت کے خاتمے، اور غیر جمہوری حکمرانی کی مزاحمت پر صف آراءرہیں۔ جب 90کی دہائی میں انہیں جج بننے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے جواب دیا : ” جج بننا اور ایک ایسے قانون کا دفاع کرنا جس پر میں یقین نہیں رکھتی منافقت کے مترادف ہوگا“۔ وہ پاکستان میں ساری زندگی، ایران میں گزشتہ چند سالوں کے دوران اور دنیا بھر میں گزشتہ دہائیوں کے دوران تمام لوگوں کے انسانی حقوق، آزادی اور وقار کی ایک پرجوش حامی رہیں۔

ہم میں سے جو انہیں جانتے ہیں، وہ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ صاف گو تھیں، بااصول تھیں، پرجوش تھیں، نہایت با ہمت تھیں اور وہ اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی تھیں۔پاکستان میں ایسی خاتون کا ہونا ہر پاکستانی کے لیے باعث ِفخر ہے۔ اوریہ انسانی حقوق کی برادری کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے لیے ایک رہنما شخصیت موجود ہے۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا نقصان ہے، اور ہم میں سے وہ تمام لوگ جو انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں انہیں آنے والی کئی دہائیوں تک ان کی قوت، رہنمائی اور حوصلے کی ضرورت رہے گی۔ وہ ہم سب اور انسانی حقوق کے محافظین کی نوجوان نسل کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ، اور اس مشترکہ جدوجہدکو جاری رکھنے کے لیے توانائی کا ذریعہ رہیں گی جس کے لیے انہوںنے نہایت فراخدلی سے اپنا کردار ادا کیا۔

درج ذیل سول سوسائٹی تنظیموںکے ایماءپر مینن کراٹس، ایف آئی ڈی ایچ کا مشترکہ بیان

آرٹیکل 19

بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی

سنٹر فار ری پروڈکٹیو رائٹس

سویکس

ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل

ڈیفنڈ ڈیفنڈرز

عالمی وفاق برائے انسانی حقوق (ایف آئی ڈی ایچ)

فورم ۔ایشیا

فرانسسکنز انٹرنیشنل

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو)

عالمی کمیشن برائے ماہرین قانون (آئی سی جے)

انٹرنیشنل کرائسز گروپ

عالمی یونین برائے انسانیت و اخلاقیات(آئی ایچ ای یو)

ہر قسم کے امتیازی سلوک اور نسلی تعصب کے خلاف بین الاقوامی تحریک( آئی ایم اے ڈی آر)

بین الاقوامی سروس برائے انسانی حقوق (آئی ایس ایچ آر)

امپیکٹ ایران

اقلیتوں کے حقوق کا گروپ

رائٹ لائیولی ہڈ ایوارڈ فاو ¿نڈیشن

عالمی حقوق کا گروپ (یو آر جی)

عالمی خواتین لیگ برائے امن و آزادی (ڈبلیو آئی ایل پی ایف)

ایذارسانی کے خلاف عالمی تنظیم (او ایم سی ٹی)

Category: Urdu

Comments are closed.