حکومت معاشی بحران اور حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لے

| 19 April 2015

لاہور
19اپریل،2015ئ
پریس ریلیز

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے مطالبہ کےا ہے کہ منتخب حکومت اور پارلیمنٹ فوج کے لےے میدان کھلا چھوڑنے کی بجائے ملک کو درپیش متعدد چیلنجوں پر قابو پائے۔ سیاسی قیادت کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ کوئی بھی فوجی آپریشن اس وقت تک موثر ےامستحکم نہیں ہوسکتا جب تک اس کی انجام دہی سول حکومت کی زیرنگرانی نہیں کی جاتی۔ فیصلہ سازی اور پالیسی کی تشکیل میں فوجی قیادت کے بڑھتے ہوئے کردار کے باعث انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ایچ آر سی پی کو موصول ہونے والی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ خوف نے ملک کے بڑے حصے کو اپنے حصار میں رکھا۔
ایچ آرسی پی کونسل کے اجلاس اور سالانہ اجلاس عام کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گےا : ” ملک کو درپیش متعدد چیلنجوں پر ایچ آرسی پی کو سخت تشویش ہے۔ ان میں سے چند گزشتہ کچھ ماہ کے دوران سامنے آئے لیکن دیگر چیلنج کونسل کے گزشتہ سال اکتوبر میں منعقد ہونے والے اجلاس کے بعد سے ہی سنگین شکل اختیار کرگئے تھے۔ ہم ےہ سمجھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل مسائل پر بلاتاخیر توجہ دینا ضروری ہے:
٭     منتخب حکومت اور پارلیمنٹ نے فوج کے لےے میدان کھلا چھوڑ کر نہ صرف جمہوری نظام پر لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ اس کے باعث انسانی حقوق سے متعلق سنگین چیلنجوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فوجی عدالتوں سے متعلق آئینی ترمیم اور تحفظ پاکستان ایکٹ (پی پی اے) دو پریشان کن مثالیں ہیں۔ نظام انصاف میں پائی جانے والی خامیوں کی وجہ سے جلدبازی میں قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کو جائز قرار دیا گےا تاہم ابھی تک نظام انصاف میں اصلاح کے لےے کوئی اقدام نہیں کےا گےا۔
٭     سائبر کرائم سے متعلق بل کی شقیں ےقیناً اظہار رائے کی آزادی پر حملہ ہیں۔ اس مسودہ قانون کے مبالغہ آمیز بیانات اور عمومی زبان کے باعث اس بل کے غلط استعمال کا امکان ہے۔ اس سے معاشرے کی متشدد قوتوں کو ایذارسانی کے ارتکاب کا موقع ملے گا۔
٭     انسانی حقوق کے محافظین اور صحافیوں کو دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے سول سوسائٹی کی تنظیموں کے دفاتر کے دوروں کے باعث ایک خوف کی فضاءقائم رہی ہے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے عام شہریوں کے خلاف ذلت آمیز اور غیر مہذب برتاو¿ کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
٭     ایچ آر سی پی کو لمز ےونیورسٹی میں بلوچستان سے متعلق اےک مذاکرے کی تنسیخ اور اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد ےونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر تیمور رحمان کے خلاف میڈیا کی جانب سے چلائی جانے والی مہم پر بھی سخت تشویش ہے۔ ایک مخصوص ٹی وی چینل کی قیادت میں چلائی جانے والی ےہ مہم نفرت انگیزبیان کے مترادف ہے۔ اس کا فوری نوٹس لےا جائے کےونکہ اس کے باعث ڈاکٹر رحمان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔
٭     قومی ایکشن پلان (نیپ) کے تحت سیکیورٹی ایجنسیوں کے دہشت گردی کے خلاف آپریشنوں میں غیرجانبداری کا فقدان ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کاروائی پر زیادہ زور دیا جارہا ہے جبکہ کالعدم تنظیموں کے لےے گنجائش پیدا کی جارہی ہے۔
٭     فاٹا میں جاری فوجی آپریشنوں میں شفافیت کا فقدان ہے۔ ےہ ضروری ہے کہ جاںبحق ہونے والے عام شہریوں کا ریکارڈ رکھا جائے، معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے خطرے کو کم کرنے کے لےے طریقہ کار متعارف کرائے جائیں، اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ ادا کےا جائے۔
٭    فاٹا کے علاقوں خیبر ایجنسی اور شمالی وزیرستان کے علاقوں سے بے دخل ہونے والے افراد کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، پاکستانی آبادی ان مصائب سے پہلی دفعہ دوچار نہیں ہوئی تھی مگر ماضی کی نقل مکانیوں سے پیدا ہونے والے بحرانوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا۔ ایچ آر سی پی کو آئی ڈی پیز کی عزت نفس مجروح ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ فوج نے جنگجوﺅں سے علاقہ خالی کرالیا ہے مگر علاقے کا کنٹرول غیر تربیت یافتہ مقامی کمیونٹیوں کے سپرد کردیا ہے۔ تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ یہ بات نہ صرف آئی ڈی پیز کے لیے تباہ کن ہے بلکہ مستقبل میں امن کے قیام کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔
٭     بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے میں 20 مزدوروں کی ہلاکت انتہائی قابل مذمت ہے۔ معصوم اور پسماندہ مزدوروں کو مارنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس قتل عام میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لاےا جانا چاہئے۔
٭    سکیورٹی فورسز نے طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے درجنوں لوگوں کو قتل کردیا جنہیں گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہئے تھا اور یہ تشویشناک امر ہے۔ بلوچستان میں فوجی کارروائی کا ازسر نو جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ آرمی چیف اور وزیرداخلہ کے حالیہ بیانات صوبے کی بلوچ آبادی کے ساتھ مصالحت کے لیے نیک شگون نہیں ہیں۔
٭    یہ انتہائی افسوسناک عمل ہے کہ پشاور سکول کے سانحے کو بنیاد بنا کر سزائے موت پر عائد پابندی ہٹا دی گئی اور پھانسیاں دینا شروع کردی گئیں۔ اگرچہ شروع شروع میں یہ کہا گیا تھا کہ پھانسیوں کا اطلاق صرف دہشت گردی کے جرائم میں ملوث افراد پر ہوگا تاہم بعدازاں ان کا اطلاق سزائے موت کے دیگر مجرموں پر بھی کردیا گیا تھا اور پہلے والے فیصلے میں تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ بھی نہ بتائی گئی۔ گزشتہ برس دسمبر میں پھانسیاں شروع ہونے کے وقت سے لے کر اب تک 72افراد کو تختہ دار پر لٹکایا جاچکا ہے۔ان میں سے متعدد مجرم دہشت گردی کے جرائم میں ملوث نہیں تھے۔
٭     ماورائے عدالت ہلاکتوں میں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال کسی حد تک بہتر ہوئی ہے مگر رینجرز وہاں جس طرح سے کام کرتی ہے اس میں شفافیت نہیں ہے۔ ایسے اعداد وشمار نہیں ہیں جن سے معلوم ہو کہ رینجرز اہلکاروں نے کتنے لوگوں کو کتنے عرصے تک حراست میں رکھا۔ ان میں سے کئی افراد کو رہا کےا گےا لیکن ان کی گرفتاری ےا رہائی کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔
٭     ملک بھر میں مذہبی اقلیتوں اور فرقوں، بالخصوص ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ شکارپور میں ایک امام بارگاہ، پنجاب میں گرجاگھروں اور سندھ کے کئی علاقوں میں مندروں کو نشانہ بنایا گےا۔ حکومت نے مذہبی اقلیتوں پر ان حملوں کی بنیادی وجوہات جاننے کی بجائے صرف علامات پر توجہ مرکوز رکھی۔
٭     گزشتہ چند ماہ کے دوران بچوں کو ان کئی ظالمانہ اور جنسی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ایسے واقعات کو غیر مربوط انفرادی واقعات سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ بچوں کے خلاف تشدد عام رہا اور اس کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے اس رجحان کو مزید تقویت ملی۔
٭    عوام کے معاشی حقوق اور ملک کو درپیش معاشی بحران پر توجہ نہیں دی جارہی جس کے نتیجے میں بیروزگاری اور غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بڑی پریشان کن بات ہے کہ بجلی، صاف پانی اور گیس کی بڑھتی ہوئی کمی پر قابو پانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ تعلیم کا بجٹ بہت کم مختص کیا گیا تھا جس کے باعث آئین کی دفعہ 25(الف) کے تحت یونیورسل تعلیم کی فراہمی کا ہدف پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ صحت کے کم بجٹ کی وجہ سے ملک بھر میں کمسن بچے اموات کا شکار ہورہے ہیں۔ پولیو کے واقعات غیر معمولی حد تک بڑھ رہے ہیں۔ پولیو ویکسینیٹرز اور ان کے محافظین کے قتل نے پاکستانی بچوں کے صحت مند مستقبل کو یقینی بنانے کا کام مزید مشکل ہوگیا ہے۔ وفاقی وصوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ ان معاملات سے پہلو تہی کرنے کی بجائے ان پر توجہ دیں کیونکہ یہ پاکستان کے عام لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
٭    جمہوریت اسی وقت مستحکم ہوگی جب اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے گا۔ مقامی اداروں کے انتخابات کا انعقاد اور انہیں اختیارات کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ایچ آر سی پی یہ بھی امید کرتا ہے کہ ایک نئے این ایف سی ایوارڈ کو جلد ازجلد حتمی شکل دی جائے گی اور مشترکہ مفادات کونسل کے کام کو بہتر بنایا جائے گا۔اٹھارہویں ترمیم کو منسوخ کرنے کی تمام واضح یا خفیہ کوششوں کا سدباب کیا جانا چاہئے۔
چیئرپرسن وکونسل اراکین

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی

Category: Urdu

Comments are closed.