ایچ آرسی پی کو چارسدہ میں کالج پرنسپل کے قتل پرنہایت تشویش ہے
پریس ریلیز
لاہور
23-جنوری 2018
لاہور
23-جنوری 2018
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے ضلع چارسدہ کے علاقے شبقدرمیں مذہب کی تضحیک کے الزام میں ایک طالبعلم کے ہاتھوں کالج پرنسپل کے قتل پرغم وغصے کا اظہارکیا ہے۔ طالبعلم کو کالج سے غیرحاضر رہنے پر مبینہ طور پر ڈانٹا گیا جس کے بعد یہ المناک واقعہ پیش آیا۔ اطلاعات کے مطابق، طالبعلم نومبر2017 میں فیض آباد دھرنے میں شرکت کے لیے کالج سے غیرحاضررہا تھا۔
ایچ آرسی پی نے اپنے ایک بیان میں کہا: ” اس قتل سے یہ افسوسناک حقیقت ایک بارپھر اجاگر ہوئی ہے کہ ذاتی رنجشیں نبٹانے کے لیے تضحیکِ مذہب کے موجودہ قوانین کا استعمال کتنا آسان ہے۔ تضحیکِ مذہب انتہائی حساس معاملہ ہے اور لوگوں کو طیش میں آ کر قتل کرنے سے قبل اُن پر عائد الزامات کو ثابت کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔
گذشتہ برس، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ایک ہجوم کے ہاتھوں مشال خان کے قتل کی ملک بھرمیں مذمت ہوئی اورتضحیک مذہب کے قانون میں ترمیم کے مطالبات سامنے آئے۔ خان پرالزام عائد کیا گیا کہ وہ سوشل میڈیا پرتوہینِ رسالت کے مرتکب ہوئے تھے مگران کے قتل کے بعد ہونیوالی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ وہ بے قصورتھے۔
افسوس کی بات ہے کہ ان واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جارہا اور نہ ہی مقتدر حلقے اِن کی روک تھام کے لیے کسی قسم کے اقدامات کر رہے ہیں۔ اس واقعہ نے ایک بارپھرثابت کردیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک طرف تو عدم برداشت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف، حکام انتہا پسندی کے چیلنج سے نبٹنے میں بے حسی اورناکامی کا شکار ہیں ۔ ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
ایچ آرسی پی نے اپنے ایک بیان میں کہا: ” اس قتل سے یہ افسوسناک حقیقت ایک بارپھر اجاگر ہوئی ہے کہ ذاتی رنجشیں نبٹانے کے لیے تضحیکِ مذہب کے موجودہ قوانین کا استعمال کتنا آسان ہے۔ تضحیکِ مذہب انتہائی حساس معاملہ ہے اور لوگوں کو طیش میں آ کر قتل کرنے سے قبل اُن پر عائد الزامات کو ثابت کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔
گذشتہ برس، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ایک ہجوم کے ہاتھوں مشال خان کے قتل کی ملک بھرمیں مذمت ہوئی اورتضحیک مذہب کے قانون میں ترمیم کے مطالبات سامنے آئے۔ خان پرالزام عائد کیا گیا کہ وہ سوشل میڈیا پرتوہینِ رسالت کے مرتکب ہوئے تھے مگران کے قتل کے بعد ہونیوالی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ وہ بے قصورتھے۔
افسوس کی بات ہے کہ ان واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جارہا اور نہ ہی مقتدر حلقے اِن کی روک تھام کے لیے کسی قسم کے اقدامات کر رہے ہیں۔ اس واقعہ نے ایک بارپھرثابت کردیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک طرف تو عدم برداشت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف، حکام انتہا پسندی کے چیلنج سے نبٹنے میں بے حسی اورناکامی کا شکار ہیں ۔ ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
Category: Urdu