عاصمہ جہانگیر کانفرنس 2018: انسانی حقوق ثقافتوں اور قوموں سے بالاتر ہیں

| 15 October 2018

پریس ریلیز

عاصمہ جہانگیر کانفرنس 2018: انسانی حقوق ثقافتوں اور قوموں سے بالاتر ہیں

لاہور ، 14 اکتوبر : 2018 ‘خودمختاری کے لیے انصاف’ کے موضوع پر منعقد ہونے ولی عاصمہ جہانگیر کانفرنس 2018 کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری، اے این پی کے رہنما افراسیاب خٹک، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، اور سابق اسپکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے شعلہ فشاں تقاریر کیں۔ کانفرنس کا انعقاد عاصمہ جہانگیر فائونڈیشن اور اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل نے کیا تھا۔

نمایاں مہمان مقررین میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ یاور علی، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، رانا مقبول(سینیٹر پی ایم ایل- ن اور سابق آئی جی پنجاب)، آئی اے رحمان (اعزازی ترجمان، ایچ آر سی پی)، فرحت اللہ بابر (سابق سینیٹر، پی پی پی)،اختر حسین (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ)، ڈاکٹر فاروق ستار (ایم کیو ایم)، شازیہ مری (پی پی پی)، بشریٰ گوہر (اے این پی)، کامران عارف (وائس چیئر پرسن کے پی، ایچ آر سی پی)، پیر کلیم خورشید(صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن)، انوار الحق پنو (صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن)، ملک ارشد (صدر لاہور بار ایسوسی ایشن)، آعظم نذیر تارڑ (سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل)، احسن بھون (سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل)، عابد ساقی (سابق صدر لاہور لائی کورٹ بار ایسوسی ایشن)، جسٹس علی باقر نجفی، علی احمد کرد (سابق صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن)، سینیئر وکیل سلمان اکرم راجا، فاروق طارق (ترجمان عوامی ورکرز پارٹی)، احمد اویس (ایڈووکیٹ جنرل پنجاب)، چودھری منظور احمد (سابق رکن پارلیمنٹ) اور جسٹس شہرام سرور، پیٹر جیکب (ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ادارہ برائے سماجی انصاف)، اور جخونگیر خیادروف (یو این ڈی پی پاکستان) شامل تھے۔

کانفرنس میں مختلف ممالک کے سفیروں نے بھی شرکت کی جن میں عزت مآب جین فرانکوئس کاٹن (یورپی یونین وفد کے سربراہ)، عزت مآب کوئبلر (جرمنی)، عزت مآب اِنگرِڈ جوہانسن (سویڈن)، عزت مآب مارگریٹ ایڈم سن (آسٹریلیا) اور عزت مآب اجے بِساریا (انڈیا) شامل تھے۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے غیر ملکی مہمانوں میں محترم مائیکل کربی اے سی سی ایم جی (سابق جسٹس ہائی کورٹ، آسٹریلیا)، کرسٹی برائملو کیو سی (صدر انسانی حقوق بار کمیٹی، انگلینڈ و ویلز)، محترم انیکا بین ڈیوڈ (انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سے متعلق سویڈن کی سفیر)، کملا بھاسن (ہندوستانی شاعرہ و کارکن) اور ڈاکٹر نِملکا فرنینڈو (اٹارنی اور انسانی حقوق کی کارکن، سری لنکا) شامل تھے۔

کانفرنس میں متعدد سیشن منعقد ہوئے جن میں بنیادی حقوق کے تحفظ، سب کے لیے انصاف اور سزا سے استثنا کا خاتمہ، اظہار رائے کی آزادی، اور انسانی حقوق سے متعلق قوانین کے نفاذ کی راہ میں حائل چیلنجز پر خصوصی توجہ دی گئی۔

کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ریاست کو چاہئے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے، غیر سرکاری تنظیموں سے پابندیاں اٹھائے اور انسانی حقوق کے محافظین کو ہراساں کرنا بند کرے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نیا میثاق جمہوریت اپناتے ہوئےجمہوری عمل کے تحفظ کے لیے بنیادی اصول مرتب کرنا ہوں گے، اور بڑی سیاسی جماعتوں کو اس میں پہل کرنا ہوگی۔ حکومتی اداروں میں عدلیہ کی مداخلت کو روکا جانا چاہئے، کیونکہ یہ دیگر ریاستی اداروں کے آئینی کردار سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کو از خود نوٹس کے استعمال سے متعلق معیارات مقرر کرنے چاہئیں۔

ریاست اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں عائد نہیں کرسکتی۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شپ ختم ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ میڈیا کمیشن رپورٹ کی سفارشات کی مطابقت میں، پیمرا کی آزادی کے لیے ایک نیا بل متعارف کرائے۔ پینل میں شامل مقررین نے کہا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں انتخابی قوانین پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی مکمل جوابدہی ہونی چاہئے اور اس کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جانی چاہئے۔ ووٹوں کی گنتی کے دوران کمیروں کا استعمال کیا جانا چاہئے۔

پاکستان کو جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کرنی چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ 2014ء میں سینیٹ کی جانب سے منظور کیےگئے بل کی منظوری دیتے ہوئے ایذارسانی کے استعمال کو روکنا چاہئے۔ کانفرنس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کو ان 153 اہلکاروں کےخلاف قانونی کارروائی کرنی چاہئے جنہوں نے جبری گمشدگیوں کا ارتکاب کیا تھا۔ کانفرنس نے یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ زیرسماعت قیدیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو نظام عدل میں پائی جانے والی وسیع خامیوں کو ظاہر کرتی ہے۔

پاکستان کو تدریسی نصاب پرنظرثانی کرکے اس میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تعصب پرمبنی مواد نکالنا چاہیے۔  مذہبی بنیاد پرستی کے ساتھ ریاست کا نرم رویہ ختم ہونا چاہیے اور مسیحی کمیونٹی کو درپیش نئے خطرات کا نوٹس لے کران کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین ختم ہونے چاہییں۔

خواتین کو جائے روزگارپرجنسی ہراسانی سے بچانے والے قانون کا اطلاق ہونا چاہیے: ایسے کیسز کی تعداد بہت کم ہے جن کی اس قانون کے تحت محتسب کے سامنے سماعت ہو رہی ہو حالانکہ عورتوں کی ہراسانی کے کئی واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔ قانون میں ترمیم کی جائے اوراس میں ‘جنسی استحصال’ اورجنسی رشوت جیسی استحالات کو شامل کیا جائے جیسا کہ بنگلہ دیش کے قانون میں ہے۔

خواجہ سرائوں کے حقوق کے حوالے سے، کانفرنس کے شرکاء نے مطالبہ کیا کہ خواجہ سرائوں کے ایکٹ 2018 کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ یہ سفارش کی گئی کہ خواجہ سراء کمیونٹی کے تحفط کے لیے بنائے گئے قوانین کے نفاذ کے لیے ایک نگران کمیٹی قائم کی جائے۔ حکومت، ذرائع ابلاغ، سول سوسائٹی، بنیادی سروسز فراہم کرنے والے اداروں اورشعبہ تعلیم کو خواجہ سراء کمینوٹی اوراوران کے حقوق کے بارے میں پورے معاشرے میں آگاہی مہم چلانی چاہیے۔

یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ویزا فری پالیسیاں متعارف کروائی جائیں۔ پینل نے جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن برائے علاقائی تعاون کو بحال کرنے کی ضرورت پربھی زوردیا اورکہا کہ فوری طور پراٹھارواں سارک اجلاس بلایا جائے۔

صنفی مساوات پر، کانفرنس نے کہا کہ صنفی مساوات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عورتوں کے ساتھ مساوی بنیادوں پرسلوک نہیں کیا جاتا۔ اس کا خانگی قوانین اورخانگی جائیداد(جو کہ ابھی تک پاکستان میں ایک نامعلوم تصورہے) اور نان نفقہ اوربچوں کی تحویل سے خاص تعلق ہے۔ اگرچہ پاکستان میں خواتین اراکین پارلیمان اورصوبائی مجالس قانون ساز نے بہت زیادہ محنت کی ہے، مگر سیاسی جماعتوں میں فیصلہ سازی میں خواتین کی شمولیتت پراب بھی غیراعلانیہ پابندی موجود ہے۔ ذرائع ابلاغ میں عورتوں کی جو تصویرکشی کی جاتی ہے، اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں عورتوں کے کرداراورمقام کے حوالے سے لوگوں کی ذہنیت اوررویے تبدیل ہوسکیں۔

آئینی اموراوراٹھارہویں ترمیم کو درپیش مشکلات کے حوالے سے، کانفرنس میں عزم کیا گیا کہ صوبائی خود مختاری اوراٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں اورعمومی طورپر 1973 کے آئین کے ذریعے ملنے والے صوبائی اختیارات، جیسا کہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کی منسوخی کی بھرپورمذمت کی جائے گی۔ پاکستان کاوفاق آئینی لحاظ سے خودمختارصوبوں اورمقامی حکومتوں کی خودمختاری پرمبنی ہونا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقررمیں پارلیمانی کمیٹی کے کردارکو بحال کیا جائے۔

پاکستان کو پناہ گزین افراد کے لیے قوانین کا اطلاق کرناچاہیے۔ اندون ملک نقل مکانی کے متعلق ڈیٹا اور ریسرچ کے متعلق ایک سروے کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو 1951 کے پناہ گزین کنونشن کی توثیق اور پناہ گزین قانون لاگو کرنا چاہیے۔  سزائے موت کے متعلق، واضع اتفاق رائے تھا کہ ہمارا نظام شفاف ٹرا‏ئل کی ضمانت نہیں دیتا اورشفاف ٹرائل کی عدم موجودگی میں سزائے موت ناقابل تنسیخ سنگین ناانصافیوں کی طرف لے جا‏ئےگی۔

منتظمین نے عاصمہ جانگیرکے مشن کو جاری رکھنے کے لیے سالانہ کانفرنس منعقد کرنے کے ارادے کا اظہار کیا، جو انسانی حقوق کے اصولوں کے لیے لڑیں، جن کے متعلق ان کا ماننا تھا کہ یہ تمام ثقافتوں، حکومتی ایجنڈے اور قوموں سے برتر ہیں۔

 

Category: Urdu

Comments are closed.