اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ انتہائی ضروری ہے
پریس ریلیز
لاہور
09-دسمبر 2017
لاہور
09-دسمبر 2017
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) کو ملک میں اظہار رائے کی آزادی کی سکڑتی ہوئی فضا پرشدید تشویش ہے۔ اختلاف رائے رکھنے،خیالات کے اظہار اور جاننے کا حق، کسی بھی جمہوری معاشرے کے بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ معلومات اورافکار کے آزادانہ بہاؤ کے بغیرشہریوں کے مابین دلائل پرمبنی گفتگو ممکن نہیں اور اس کے بغیر معاشرہ مزید تقسیم اورعدم رواداری کاشکارہوگا۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرجاری ہونی والے ایک بیان میں، کمیشن نے کہا: ” 2018 میں انسانی حقوق کے عالمی دن کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر، ایچ آرسی پی کو شدید دکھ سے کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستان میں اظہارکی آزادی کی فضا تنگ ہورہی ہے جو کہ افسوسناک بات ہے۔ شہریوں کے آزادئ اظہارکا گلا گھونٹنے کا نتیجہ دیگرتمام حقوق کی نفی کی صورت میں نکلتا ہے”۔
حالیہ مہینوں میں، پاکستان میں ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی اقدامات کئے گئے جن میں میڈیا پرحملے، ان کی بندش،ان کے خلاف سازباز، الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے استبدادی قانون 2016 کا نفاذ اورصحافیوں کو دھمکیاں شامل ہیں۔ حال ہی میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے فیض آباد آپریشن میں حکومتی ناکامی کو عوام کی آنکھوں سے اوجھل رکھنے کے لیے پاکستان بھرمیں نجی ٹی وی چینلوں کو 28 گھنٹے تک بند رکھاجوکہ کسی سرکاری ادارے کی طرف سے یکطرفہ کارروائی کے ذریعے ذرائع ابلاغ کو خاموش کرانے کا غیر متناسب کام تھا۔
”ان پابندیوں کی مزاحمت کرنے والے تمام لوگ سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں اغواء ہوئے ہیں۔ جبری گمشدہ ہونے والوں میں سماجی میڈیا کے کارکن، نیوزرپورٹرز، صحافی اورانسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ جبری گمشدگی کا حالیہ ترین نشانہ پاکستان اورہندوستان کے درمیان امن پرکام کرنے والے اورآغاز دوستی کے کنوینررضا خان کو بنایا گیا ہے۔”
” ان تمام کارروائیوں سے سول سوسائٹی اظہاررائے کی صلاحیت کا بھرپورمظاہرہ کرنے سے قاصرہے کیونکہ سول سوسائٹی کے کارکن اپنی رائے کے آزادانہ اظہار رائے کے استعمال کے سنگین نتائج سے خوفزدہ ہیں”۔
”ایچ آرسی پی کا پرزورمطالبہ ہے کہ:” حکومت ملک کی حالیہ صورتحال سے چشم پوشی کا سلسلہ بند کرے اور اظہاررائے کی آزادی کو خطرے میں ڈالنے والے ظالمانہ اقدامات کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ دوسری طرف، عوام کو معلومات دینے والے اور اظہاررائے کرنے والے عناصرکو خاص طورپرمرکزی ذرائع ابلاغ سے منسلک لوگوں کو ذمہ داری اوراخلاق کا مظاہرکرنا ہوگا تاکہ غیرجانبداراوردرست نقطہ نظرسامنے آسکے۔ انہیں نہ تو خود کودستیاب فورمز کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے اورنہ ہی دھونس وتشدد کی کوششوں کے زیراثرآنا چاہیے”۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرجاری ہونی والے ایک بیان میں، کمیشن نے کہا: ” 2018 میں انسانی حقوق کے عالمی دن کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر، ایچ آرسی پی کو شدید دکھ سے کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستان میں اظہارکی آزادی کی فضا تنگ ہورہی ہے جو کہ افسوسناک بات ہے۔ شہریوں کے آزادئ اظہارکا گلا گھونٹنے کا نتیجہ دیگرتمام حقوق کی نفی کی صورت میں نکلتا ہے”۔
حالیہ مہینوں میں، پاکستان میں ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی اقدامات کئے گئے جن میں میڈیا پرحملے، ان کی بندش،ان کے خلاف سازباز، الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے استبدادی قانون 2016 کا نفاذ اورصحافیوں کو دھمکیاں شامل ہیں۔ حال ہی میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے فیض آباد آپریشن میں حکومتی ناکامی کو عوام کی آنکھوں سے اوجھل رکھنے کے لیے پاکستان بھرمیں نجی ٹی وی چینلوں کو 28 گھنٹے تک بند رکھاجوکہ کسی سرکاری ادارے کی طرف سے یکطرفہ کارروائی کے ذریعے ذرائع ابلاغ کو خاموش کرانے کا غیر متناسب کام تھا۔
”ان پابندیوں کی مزاحمت کرنے والے تمام لوگ سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں اغواء ہوئے ہیں۔ جبری گمشدہ ہونے والوں میں سماجی میڈیا کے کارکن، نیوزرپورٹرز، صحافی اورانسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ جبری گمشدگی کا حالیہ ترین نشانہ پاکستان اورہندوستان کے درمیان امن پرکام کرنے والے اورآغاز دوستی کے کنوینررضا خان کو بنایا گیا ہے۔”
” ان تمام کارروائیوں سے سول سوسائٹی اظہاررائے کی صلاحیت کا بھرپورمظاہرہ کرنے سے قاصرہے کیونکہ سول سوسائٹی کے کارکن اپنی رائے کے آزادانہ اظہار رائے کے استعمال کے سنگین نتائج سے خوفزدہ ہیں”۔
”ایچ آرسی پی کا پرزورمطالبہ ہے کہ:” حکومت ملک کی حالیہ صورتحال سے چشم پوشی کا سلسلہ بند کرے اور اظہاررائے کی آزادی کو خطرے میں ڈالنے والے ظالمانہ اقدامات کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ دوسری طرف، عوام کو معلومات دینے والے اور اظہاررائے کرنے والے عناصرکو خاص طورپرمرکزی ذرائع ابلاغ سے منسلک لوگوں کو ذمہ داری اوراخلاق کا مظاہرکرنا ہوگا تاکہ غیرجانبداراوردرست نقطہ نظرسامنے آسکے۔ انہیں نہ تو خود کودستیاب فورمز کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے اورنہ ہی دھونس وتشدد کی کوششوں کے زیراثرآنا چاہیے”۔
ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
Category: Urdu