رکن پارلیمان کی عوامی فورم پر نفرت انگیزتقریر قابل مذمت ہے: ایچ آر سی پی
پریس ریلیز
لاہور
12-اکتوبر، 2017
لاہور
12-اکتوبر، 2017
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر غم وغصے کا اظہار کیا ہے، جس میں ایک مذہبی اقلیتی گروہ کواشتعال انگیز گفتگو کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خلاف امتیازی اقدامات کا مطالبہ کیا گیاتھا۔
جمعرات کو کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’ایچ آر سی پی عوامی فورم پر پاکستان کے مذہبی اقلیتی گروہ کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف امتیازی رویے کے مطالبے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ رکن پارلیمان نے 10 اکتوبر2017 ء کو قومی اسمبلی میں احمدیوں کو اپنی اشتعال انگیز گفتگو کا نشانہ بنایا تھا۔ احمدیہ برادری پہلے ہی پاکستان کا سب سے ستم زدہ مذہبی اقلیتی گروہ ہے۔ شہریوں کے خلاف اس انداز سے امتیازی سلوک، نفرت اور انہیں دیوار سے لگانے جیسے اقدامات کی وکالت کے لیے قومی اسمبلی جیسے ایوان کا استعمال اور زیادہ افسوسناک بات ہے۔
حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان نے احمدی برادری پر پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور انہیں ملک، اس کے آئین اور نظریے کے خلاف خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے دیگر مطالبات کے علاوہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ احمدیوں کی مسلح افواج اور ایٹمی توانائی کمیشن پاکستان جیسے قومی اداروں میں بھرتی پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کا نام نوبل ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھنا بھی قبول نہیں کیونکہ وہ احمدی تھے۔
یہ ملک میں ایک انتہائی مایوس کن رجحان ہے جہاں مذہبی اقلیتی گروہوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مظاہرے عام دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کے اراکین کو عوامی فورم پر اس طرح ناروا دار اور سیاسی اعتبار سے غلط آراء کے اظہار کی آزادی ہو اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے تو یہ بات انتہائی مشکلات میں گھری پاکستانی جمہوریت کے لیے بھی نیک شگون نہیں ہے۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا اُس وقت موجود رکن پارلیمان نے مذکورہ رکن پارلیمان کی مذمت نہیں کی جب وہ تقریر کر رہے تھے۔
پاکستان کی انسانی حقوق سے متعلقہ قومی وعالمی ذمہ داریاں اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کی تضحیک کی اجازت نہیں دیتیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو۔
حکومت کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس قسم کی نفرت انگیز تقریر کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہوں اور اس کی مذمت کی جائے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے لوگوں کو پیغام ملے گا کہ اس قسم کی کارروائیاں کرنے والے لوگ سزا سے بچ نہیں سکتے۔
جمعرات کو کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’ایچ آر سی پی عوامی فورم پر پاکستان کے مذہبی اقلیتی گروہ کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف امتیازی رویے کے مطالبے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ رکن پارلیمان نے 10 اکتوبر2017 ء کو قومی اسمبلی میں احمدیوں کو اپنی اشتعال انگیز گفتگو کا نشانہ بنایا تھا۔ احمدیہ برادری پہلے ہی پاکستان کا سب سے ستم زدہ مذہبی اقلیتی گروہ ہے۔ شہریوں کے خلاف اس انداز سے امتیازی سلوک، نفرت اور انہیں دیوار سے لگانے جیسے اقدامات کی وکالت کے لیے قومی اسمبلی جیسے ایوان کا استعمال اور زیادہ افسوسناک بات ہے۔
حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان نے احمدی برادری پر پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور انہیں ملک، اس کے آئین اور نظریے کے خلاف خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے دیگر مطالبات کے علاوہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ احمدیوں کی مسلح افواج اور ایٹمی توانائی کمیشن پاکستان جیسے قومی اداروں میں بھرتی پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کا نام نوبل ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھنا بھی قبول نہیں کیونکہ وہ احمدی تھے۔
یہ ملک میں ایک انتہائی مایوس کن رجحان ہے جہاں مذہبی اقلیتی گروہوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مظاہرے عام دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کے اراکین کو عوامی فورم پر اس طرح ناروا دار اور سیاسی اعتبار سے غلط آراء کے اظہار کی آزادی ہو اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے تو یہ بات انتہائی مشکلات میں گھری پاکستانی جمہوریت کے لیے بھی نیک شگون نہیں ہے۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا اُس وقت موجود رکن پارلیمان نے مذکورہ رکن پارلیمان کی مذمت نہیں کی جب وہ تقریر کر رہے تھے۔
پاکستان کی انسانی حقوق سے متعلقہ قومی وعالمی ذمہ داریاں اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کی تضحیک کی اجازت نہیں دیتیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو۔
حکومت کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس قسم کی نفرت انگیز تقریر کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہوں اور اس کی مذمت کی جائے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے لوگوں کو پیغام ملے گا کہ اس قسم کی کارروائیاں کرنے والے لوگ سزا سے بچ نہیں سکتے۔
ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
Category: Urdu