یورپی یونین کو حکومت پاکستان کے ساتھ ملاقات کے دوران انسانی حقوق کی بہتری پر زور دینا چاہیے
مشترکہ پریس ریلیز
یورپی یونین کو حکومت پاکستان کے ساتھ ملاقات کے دوران انسانی حقوق کی بہتری پر زور دینا چاہیے
لاہور، پیرس 12 نومبر : 2018 ایف ۤآئی ڈی ایچ اور اس کی رکن تنظیموں، اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)نے آج کہا ہے کہ یورپی یونین (ای یو) کو آئندہ دنوں حکومت پاکستان کے ساتھ انسانی حقوق سے متعلق ہونے والی بات چیت کے دوران ملک کی نئی حکومت پر زور دینا چاہئے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اصلااحات کرے۔
ایف آئی ڈی ایچ اور ایچ آر سی پی نے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب نظم و نسق اور انسانی حقوق سے متعلق ای یو پاکستان جوائنٹ کمیشن کا سب گروپ پاکستان کا دورہ کرنے والا ہے۔ یہ ملاقات 13 نومبر2018ء کو اسلام آباد میں طے ہے۔ اس حوالے سے دو تنظیموں نے اپنا مشترکہ بریفنگ نوٹ جاری کیا ہے جس میں جوائنٹ کمیشن کے اکتوبر 2017ء کو ہونے والے گزشہ دورے سے اب تک انسانی حقوق کے اہم مسائل کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔
ایف آئی ڈی ایچ کے نائب صدر عدیل الرحمان کا کہنا ہے کہ ‘پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی خطرناک رفتار سے جاری ہے اور مجرموں کو سزا سے استثنا حاصل ہے۔ ای یو کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان کو انسانی حقوق سے متعلق جن مسائل کا سامنا ہے انہیں ایک جامع طریقے سے حل کیا جائے اور بہتری کے لیے واضح معیارمقرر کیے جائیں۔’
بریفنگ نوٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک بھر کے پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی کے باعث جولائی 2018ءکے انتخابات متاثر ہوئےاور یہ کہ انتخابی نتائج کی تشہیر میں غیر معمولی تاخیر سے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کے تاثر کو تقویت ملی۔
پاکستان پھانسیاں اور سزائے موت دینے والے سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔ یکم جنورری سے 15 اکتوبر 2018ء کے دوران 124 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ کم از کم 10 لوگوں کو پھانسی دی گئی۔ اکتوبر 2018ء تک، کم از کم 4688 قیدی سزائے موت کے منتظر تھے۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات اب بھی بڑی تعداد میں رپورٹ ہورہے ہیں۔ صرف اگست 2018ء میں، حکومت کی جانب سے نامزد کردہ جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن نے 59 نئے کیسز کی اطلاع دی جبکہ اس حوالے سے ہونے والی تحقیقات اور قانونی کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام شہریوں کا فوجی اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ٹرائل ایک معمول بن چکا ہے۔ ایسی قانونی کارروائیاں شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی معیارات کے منافی ہیں۔
دریں اثنا، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے محافظین (ایچ آر ڈیز)، اور میڈیا کو دھمکیوں اور ہراسانی کا مسلسل سامنا ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران متعدد صحافیوں کو اغواء کیا گیا اور ایسے واقعات میں ملوث افراد کو سزا سے مکمل استثنا حاصل رہا۔ میڈیا کے متعدد اداروں کو بندش اور سنسر شپ کے خطرے کا سامنا رہا۔ سابقہ انتظامیہ کی طرح نئی حکومت نے بھی بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے خلا ف کریک ڈائون جاری رکھا ہواہے۔ اکتوبر 2018ء کے شروع میں، حکومت نے 18 بین الاقوامی امدادی تنظیموں کو اپنے آپریشن بند کرنے اور ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔
‘ پاکستان کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن کوئی بھی چیلنج ریاست کی سرپرستی میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مجرموں کو حاصل سزا سے استثنا سے بڑا نہیں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت ان لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لاتے ہوئے جنہوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کی سزا ختم کیے جانے کے بعد ان کے خلاف تشدد کی دھمکی دی تھی، اور انہیں اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کو ترجیح دے۔
ایف آئی ڈی ایچ اور ایچ آر سی پی یورپی یونین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تشدد اور ناروا سلوک کا شکار خواتین اور بچوں، جنہیں حکومت نے نظر انداز کر رکھا ہے، کے حقوق کے تحفظ سے متعلق اہم مسائل کے علاوہ ہم جنس پرست خواتین، ہم جنس مردوں، مخنثوں، اور خواجہ سرائوں کے حقوق سے متعلق مسائل کو اجاگر کرے۔ مشترکہ بریفنگ نوٹ مبہم قوانین جیسے کہ ضابطہ فوجداری کا آرٹیکل 295(c) اور الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ، پر نظرثانی کی ضرورت کی بھی نشاندہی کرتا ہے، تاکہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق اور آزادی اظہار رائے کے حق کا تحفظ کیا جاسکے۔ یہ مطالبات نومبر 2017ء میں پاکستان کے تیسرے سلسلہ وار جائزے کے دوران یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی جانب سے پیش کی گئیں سفارشات کے عین مطابق ہیں۔
عدیل الرحمان
نائب صدر بین الاقوامی فیڈریشن برائے انسانی حقوق |
ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق
|
Category: Urdu