ہمارے بچے ہمارا مستقبل، ان کے حقوق کا تحفظ ہم سب پر لازم
پریس ریلیز
21-نومبر2017
لاہور
21-نومبر2017
لاہور
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق بچوں کے عالمی دن کے موقع پر حکومت کی توجہ اس امر کی طرف دلانا چاہتا ہے کہ آج بھی پاکستان میں ہزاروں بے گھر بچے جنسی تشدد او جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ آج بھی سکول جانے کی عمر کے دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ جب کہ بچوں سے مشقت لینے کے خلاف قانون موجود ہونے کے باوجود جگہ جگہ کم عمر بچے مختلف کام کرتے اور بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور گھروں میں کام کرنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے پاکستان میں حالیہ برسوں میں قانون سازی تو ہوئی مگر ان قوانین پر موثر عملدرآمد اور نچلی سطح تک اس سے آگاہی نہ ہونے کے باعث ان سے وہ مقاصد پورے نہیں ہورہے جس کے لیے یہ قوانین بنائے گئے تھے۔معاشرے کی نچلی سطح پر آگاہی بہت کم ہے۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔
اگر بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے تووالدین کو معلوم نہیں ہوتاکہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ منفی سماجی رویوں کی بدولت وہ خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور ان کی یہی خاموشی مجرموں کو تقویت دینے کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان میں اکثر لوگ بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات اس لیے منظر عام پر نہیں لاتے کہ لوگ کیا کہیں گے، بدنامی کا خوف اور اداروں پر عدم اعتمادخاموش رہنے کی بنیادی وجوہات ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام میں بچوں کے حقوق سے منسلک اداروں پر اعتماد سازی کے لیے موثر اقدامات کرے۔ قصور میں ہونے والے جنسی سانحہ کے بعد حکومت کو اس بات کا شدت سے احساس کرنا چاہیے تھا کہ اس طرح کی زیادتیاں کس طرح سماجی بدنامی کے خوف سے دبی رہتی ہیں۔ مگر مظلوم کی شناخت کو صیغہء راز میں رکھنے کے حوالے سے ہمیں کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔
اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق کی کمیٹی نے بچوں کے حقوق کے میثاق پر عملدرآمد سے متعلق حکومت پاکستان کی پانچویں سلسلہ وار رپورٹ کا جائزہ لیا اور اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان معاہدے کے تحت اپنی کئی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کمیٹی نے ایسے افراد کی پھانسی جن کی عمرجرم کے ارتکاب کے وقت 18 سال سے کم تھی۔ بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک، تھانوں اور جیلوں میں بچوں کے خلاف ایذار سانی کا منظم اور وسیع استعمال، بچوں کے حقوق سے متعلق زیر التواء قوانین، جسمانی سزا اور صحت اور تعلیم کے لیے کم بجٹ جیسے اہم مسائل کی نشاندہی کی ہے۔
عالمی غذائیت رپورٹ 2016 ء کے مطابق، پاکستان دنیا کے ان ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں نشودنما کی کمی کا شکار بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کی 2016ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 2015ء میں پاکستان میں ہر ہزار میں سے66 بچے پیدائش کے دوران ہلاک ہوئے۔ یہ دنیا میں شیر خوار اور نومولود بچوں کی بلند ترین شرح اموات میں شامل ہے۔
جرائم کے مقدمات میں ملوث بچوں سے بین الاقوامی اور ملکی قوانین کے مطابق برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر بچوں کو پولیس کی حراست اور جیل کے اندرتشدد اور نارواسلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے مقدمات کی سماعت مقررہ طریقہ ہائے کار کے مطابق نہیں ہوتی۔
ریاست خاندان کے سہارے سے محروم بچوں کو مناسب تحفظ فراہم نہیں کرتی اور نتیجتاً زیادہ تر بچے گلیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں جس کے باعث بے گھر بچوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایسے بچوں کے لیے’’ بچہ گھر‘‘ انسانی حقوق کے بنیادی معیارپر پورا نہیں اترتا، جس کے نتیجے میں بچے مزید استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔پاکستان میں صرف 27فیصد بچوں کی پیدائش کے وقت اندراج ہوتا ہے۔ باقی جن کا اندراج بروقت نہیں ہوتا یہ ان کے شناخت کے حق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔رسم ورواج کے باعث ہر سال ہزاروں بچے کم عمری کی شادی کا شکار ہوتے ہیں۔
کمیشن خاص طور پر حکومت کی اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم ہر سطح پر وہ تمام اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے جس سے بچوں کومحفوظ ماحول ملے ، ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع ملیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے پاکستان میں حالیہ برسوں میں قانون سازی تو ہوئی مگر ان قوانین پر موثر عملدرآمد اور نچلی سطح تک اس سے آگاہی نہ ہونے کے باعث ان سے وہ مقاصد پورے نہیں ہورہے جس کے لیے یہ قوانین بنائے گئے تھے۔معاشرے کی نچلی سطح پر آگاہی بہت کم ہے۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔
اگر بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے تووالدین کو معلوم نہیں ہوتاکہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ منفی سماجی رویوں کی بدولت وہ خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور ان کی یہی خاموشی مجرموں کو تقویت دینے کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان میں اکثر لوگ بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات اس لیے منظر عام پر نہیں لاتے کہ لوگ کیا کہیں گے، بدنامی کا خوف اور اداروں پر عدم اعتمادخاموش رہنے کی بنیادی وجوہات ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام میں بچوں کے حقوق سے منسلک اداروں پر اعتماد سازی کے لیے موثر اقدامات کرے۔ قصور میں ہونے والے جنسی سانحہ کے بعد حکومت کو اس بات کا شدت سے احساس کرنا چاہیے تھا کہ اس طرح کی زیادتیاں کس طرح سماجی بدنامی کے خوف سے دبی رہتی ہیں۔ مگر مظلوم کی شناخت کو صیغہء راز میں رکھنے کے حوالے سے ہمیں کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔
اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق کی کمیٹی نے بچوں کے حقوق کے میثاق پر عملدرآمد سے متعلق حکومت پاکستان کی پانچویں سلسلہ وار رپورٹ کا جائزہ لیا اور اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان معاہدے کے تحت اپنی کئی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کمیٹی نے ایسے افراد کی پھانسی جن کی عمرجرم کے ارتکاب کے وقت 18 سال سے کم تھی۔ بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک، تھانوں اور جیلوں میں بچوں کے خلاف ایذار سانی کا منظم اور وسیع استعمال، بچوں کے حقوق سے متعلق زیر التواء قوانین، جسمانی سزا اور صحت اور تعلیم کے لیے کم بجٹ جیسے اہم مسائل کی نشاندہی کی ہے۔
عالمی غذائیت رپورٹ 2016 ء کے مطابق، پاکستان دنیا کے ان ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں نشودنما کی کمی کا شکار بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کی 2016ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 2015ء میں پاکستان میں ہر ہزار میں سے66 بچے پیدائش کے دوران ہلاک ہوئے۔ یہ دنیا میں شیر خوار اور نومولود بچوں کی بلند ترین شرح اموات میں شامل ہے۔
جرائم کے مقدمات میں ملوث بچوں سے بین الاقوامی اور ملکی قوانین کے مطابق برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر بچوں کو پولیس کی حراست اور جیل کے اندرتشدد اور نارواسلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے مقدمات کی سماعت مقررہ طریقہ ہائے کار کے مطابق نہیں ہوتی۔
ریاست خاندان کے سہارے سے محروم بچوں کو مناسب تحفظ فراہم نہیں کرتی اور نتیجتاً زیادہ تر بچے گلیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں جس کے باعث بے گھر بچوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایسے بچوں کے لیے’’ بچہ گھر‘‘ انسانی حقوق کے بنیادی معیارپر پورا نہیں اترتا، جس کے نتیجے میں بچے مزید استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔پاکستان میں صرف 27فیصد بچوں کی پیدائش کے وقت اندراج ہوتا ہے۔ باقی جن کا اندراج بروقت نہیں ہوتا یہ ان کے شناخت کے حق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔رسم ورواج کے باعث ہر سال ہزاروں بچے کم عمری کی شادی کا شکار ہوتے ہیں۔
کمیشن خاص طور پر حکومت کی اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم ہر سطح پر وہ تمام اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے جس سے بچوں کومحفوظ ماحول ملے ، ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع ملیں۔
Category: Urdu